سروسز سیکٹر سب سے بڑا روزگار فراہم کرنے والا شعبہ بن گیا
پاکستان میں مساجد کی تعداد 6 لاکھ سے زائد اور فیکٹریوں کی صرف 23 ہزار ہے جبکہ ملک کی مجموعی افرادی قوت کا 45 فیصد سروسز سیکٹر میں روزگار حاصل کرتا ہے، جو اس تاثر کی نفی کرتا ہے کہ صنعت سب سے زیادہ ملازمتیں فراہم کرنے والا شعبہ ہے، یہ انکشاف ملک کی پہلی اقتصادی مردم شماری میں کیا گیا۔اقتصادی مردم شماری کے مطابق ملک میں کل 4 کروڑ مستقل یونٹس میں سے 72 لاکھ معاشی ڈھانچے ہیں جہاں 2023 تک 2 کروڑ 54 لاکھ افراد کام کر رہے تھے۔
یہ معلومات آبادی مردم شماری کے ساتھ حاصل کی گئی تھیں رپورٹ جمعرات کو وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے جاری کی۔یہ رپورٹ وزارت منصوبہ بندی کی جانب سے جاری کی جانے والی تیسری تفصیلی رپورٹ ہے، جو آبادی مردم شماری اور زرعی مردم شماری کے بعد سامنے آئی، جس سے 1947 سے رکی ہوئی معلومات پر مبنی معاشی منصوبہ بندی کی راہ ہموار ہوئی۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ پنجاب اور کراچی ڈویژن میں معاشی یونٹس اور افرادی قوت دونوں کی سب سے زیادہ تعداد موجود ہے۔ ملک میں 6 لاکھ مساجد اور 36 ہزار سے زائد دینی مدارس ہیں جن میں زیادہ تر پنجاب میں قائم ہیں جبکہ فیکٹریاں صرف 23 ہزار ہیں، اس کے علاوہ چھوٹی پیداوار کے 6 لاکھ 43 ہزار یونٹس ہیں۔کل افرادی قوت میں سے سب سے زیادہ، یعنی 45 فیصد (1 کروڑ 13 لاکھ) لوگ سروسز سیکٹر میں کام کر رہے ہیں۔ اس کے بعد سماجی شعبہ 30 فیصد (76 لاکھ) کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ پیداوار کا شعبہ صرف 22 فیصد افراد کو روزگار دیتا ہے، جو سروسز سیکٹر سے نصف ہے۔
پنجاب سب سے بڑی افرادی قوت (1 کروڑ 36 لاکھ) کا حامل ہے اور پیداوار و خدمات دونوں شعبوں میں آگے ہے۔ خیبر پختونخوا میں 40 لاکھ جبکہ بلوچستان میں صرف 14 لاکھ افرادی قوت ہے۔زیادہ تر کاروبار بہت چھوٹے پیمانے پر ہیں اور چند ہی افراد کو روزگار دیتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 71 لاکھ معاشی ڈھانچے ایسے ہیں جہاں 1 سے 50 افراد کام کرتے ہیں۔ 51 سے 250 ملازمین والے یونٹس کی تعداد صرف 35,351 ہے جبکہ 250 سے زیادہ افراد کو روزگار دینے والی یونٹس صرف 7,086 ہیں۔وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مستند ڈیٹا پائیدار ترقی کی ریڑھ کی ہڈی ہے کیونکہ یہ شواہد پر مبنی منصوبہ بندی اور موثر فیصلے سازی کو ممکن بناتا ہے۔انھوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت بھی درست ڈیٹا کے بغیر کارگر نہیں ہو سکتی، ڈیجیٹل معیشت میں ڈیٹا حقیقی ایندھن ہے۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ 72 لاکھ ریکارڈ شدہ یونٹس میں سے 27 لاکھ ریٹیل دکانیں، 1 لاکھ 88 ہزار ہول سیل دکانیں، 2 لاکھ 56 ہزار ہوٹلز اور 1 لاکھ 19 ہزار ہسپتال شامل ہیں۔ملک میں 2 لاکھ 42 ہزار اسکول، 11,568 کالجز، 214 یونیورسٹیاں، 6 لاکھ 4 ہزار مساجد اور 19,645 بینک ہیں۔احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان کے برعکس خطے کے دیگر ممالک 1977 سے باقاعدگی سے اقتصادی مردم شماریاں کر رہے ہیں۔
بھارت اب تک سات جبکہ بنگلہ دیش تین اقتصادی مردم شماریاں کر چکا ہے، لیکن پاکستان میں 2003 میں کی گئی کوشش ناکام ہو گئی تھی۔پاکستان کے زیادہ تر معاشی یونٹس (58 فیصد) سروسز سیکٹر میں آتے ہیں، 25 فیصد پیداوار اور 14 فیصد سماجی شعبے سے متعلق ہیں۔باقی 3 فیصد دیگر سرگرمیوں پر مشتمل ہیں۔ملک میں سب سے زیادہ معاشی ڈھانچے پنجاب میں ہیں (58 فیصد)۔ سندھ 20 فیصد کے ساتھ دوسرے، خیبر پختونخوا 15 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ بلوچستان کا حصہ 6 فیصد جبکہ اسلام آباد کا صرف 1 فیصد ہے۔رہائشی عمارتیں مجموعی ڈھانچوں کا سب سے بڑا حصہ ہیں (79.4 فیصد)۔ خیبر پختونخوا میں یہ تناسب سب سے زیادہ 81.6 فیصد ہے۔
کثیر المنزلہ عمارتوں کی کل تعداد 1 لاکھ 14 ہزار ہے جن میں سے 64 فیصد رہائشی، 29 فیصد رہائشی و معاشی اور صرف 6.7 فیصد خالصتاً معاشی ہیں۔
Leave A Comment