تازہ ترین

وفاقی حکومت نے مالی سال 25۔2024 کے لیے مقرر کردہ مہنگائی کا ہدف حاصل کر لیا لیکن اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے شرح سود ڈبل ڈیجٹ پر رکھنے سے ملک کی معاشی شرح نمو متاثر ہوئی، کاروباری اخراجات بڑھ گئے اور ملکی برآمدات علاقائی ممالک کے ساتھ مقابلے کے قابل نہ رہیں۔ وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ ماہانہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران افراط زر کی اوسط شرح 4.49 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ وفاقی حکومت نے مالی سال 2024-25 کے لیے سالانہ مہنگائی کا ہدف 12 فیصد مقرر کیا تھا،آئی ایم ایف نے مالی سال کے شروع میں اس کا تخمینہ 15 فیصد لگایا تھا لیکن بعدازاں اسے کم کردیا،البتہ حکومت اور عالمی مالیاتی ادارے دونوں کے اندازے غلط ثابت ہوئے اور مہنگائی سنگل ڈیجٹ میں آگئی۔ جون 2025ء میں مہنگائی کی شرح 3.23 فیصد رہی جو مئی 2025کے مقابلے میں 0.23 فیصد معمولی زیادہ ہے۔ شہری علاقوں میں جون کے دوران مہنگائی میں ماہانہ بنیادوں پر 0.08 فیصد اضافہ ہوا جبکہ دیہی علاقوں میں یہ اضافہ 0.47 فیصد رہا۔ ماہانہ بنیادوں پر جون 2025ء میں شہری علاقوں میں مہنگائی کی شرح 3 فیصد جبکہ دیہی علاقوں میں 3.58فیصد رہی۔ وزارت خزانہ نے جون کے لیے مہنگائی کا تخمینہ 3 سے4 فیصد کے درمیان لگایا تھا جو اعداد و شمار کے مطابق درست ثابت ہوا۔مہنگائی کی حد تک حکومت چینی کی قیمت پر کنٹرول نہیں رکھ سکی،اس کی بنیادی وجہ سٹاک چیک کیے بغیر اس کی برآمد ہے ۔چینی کی قیمت میں گزشتہ سال کے مقابلے میں صرف گزشتہ ایک ماہ میں ایک چوتھائی اضافہ ہوا ہے۔ چینی کی قیمت میں اضافہ کی ایک وجہ اس پر18 فیصد ٹیکس بھی ہے۔ چینی کے علاوہ گزشتہ سال کے مقابلے میں انڈوں کی قیمتوں میں 25 فیصد،خشک دودھ کی قیمت میں 22 فیصد،گوشت کی قیمت میں گیارہ فیصد اضافہ ہوا ہے۔البتہ پیاز کی قیمتیں گزشتہ سال کے مقابلے میں 56 فیصد کم رہی ہیں۔اسی طرح ٹماٹر اور گندم کی قیمتوں میں بھی 17 فیصد کمی ہوئی ہے۔ گزشتہ ماہ بجلی کے نرخوں میں بھی گزشتہ سال کے مقابلے میں 30 فیصد تک کمی ہوئی ہے۔پٹرول پر مزید ٹیکس لگانے کے باوجود اب بھی یہ گزشتہ سال کے مقابلے میں دو فیصد سستا ہے۔مہنگائی کے حوالے سے حکومت اور آئی ایم ایف دونوں کے تخمینوں کی بدولت سٹیٹ بینک آف پاکستان نے دباؤمیں آکر شرح سود کو ڈبل ڈیجٹ میں رکھا جس کا معاشی نمو پر برا اثر پڑا۔اس وقت سٹیٹ بینک کی شرح سود گیارہ فیصد ہے جو مالی سال کے اختتام تک مہنگائی کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔زیادہ شرح سود کا فائدہ صرف کمرشل بینکو ں کو ہوا ہے ،لیکن ملک میں کاروباری اخراجات بڑھ گئے ہیں ،وفاقی حکومت کوقرضوں پر سود کی مد میں آدھا بجٹ خرچ کرنا پڑا ہے۔اس وقت بھی گیارہ فیصد شرح سود کی صورت میں حکومت کو سات ہزار 200 ارب روپے صرف قرضوں پر سود کی مد میں خرچ کرنا پڑیں گے۔آزاد تھنک ٹینک اکنامک پالیسی اور بزنس ڈویلپمنٹ کے مطابق اتنی بلند شرح سود سے معیشت جمود کا شکا ر رہے گی،ہمارے مقابلے میں علاقائی ممالک اپنی صنعتی بنیاد اور برآمدی صلاحیت کو بڑھاتے چلے جائیں گے۔اس سال کے بجٹ میں بھی حکومت نے قرضوں پر سودکی مد میں8 ہزار200 ارب روپے مختص کیے ہیں جو مجموعی بجٹ کا 46 فیصد ہیں۔ان حالات میں حکومت کو شرح سود 6 فیصد پر لانی چاہیے۔یوں وہ اپنے لیے تین ہزار ارب روپے بھاری رقوم بچا سکتی ہے۔ان بچتوں سے حکومت کاروباری اخراجات میں کمی کرکے ملک میں ملازمتیں پیدا کرسکتی ہے۔اس وقت بھی افراط زر اور سٹیٹ بینک کی شرح سود میں فرق 7.8 فیصد ہے۔ ادارہ شماریات نے یہ رپورٹ 35 شہروں سے356 اشیائے صرف کا ڈیٹا اکٹھا کرکے مرتب کی ہے۔دیہات میں اس رپورٹ کیلیے 27 مراکز سے 244 اشیائے صرف کا ڈیٹا لیا گیا۔اشیائے خوراک کی قیمتوں میں شہروں کی حد تک معمولی اضافہ ہوا ہے جو 4.2 فیصد سے بڑھ کر 2.4تک پہنچ گئی ہیں۔

Leave A Comment

Advertisement