تازہ ترین

برطانیہ میں بڑھتی ہوئی عوامی تشویش کے تناظر میں سابق بریگزٹ رہنما نائیجل فراج نے اعلان کیا ہے کہ ان کی جماعت ریفارم یوکے اقتدار میں آ کر چھوٹی کشتیوں سے آنے والے مہاجرین کو اجتماعی طور پر ملک بدر کرے گی۔رپورٹ کے مطابق سابق بریگزٹ مہم کے رہنما نائیجل فراج نے ہفتے کے روز اعلان کیا کہ اگر ان کی جماعت ریفارم یوکے برطانیہ کی اگلی حکومت بناتی ہے تو وہ چھوٹی کشتیوں کے ذریعے انگلش چینل عبور کرنے والے مہاجرین کی اجتماعی ملک بدری کریں گے۔دیے گئے انٹرویو میں فراج نے کہا کہ وہ برطانیہ کو یورپی کنونشن برائے انسانی حقوق سے الگ کر دیں گے اور افغانستان، اریٹیریا اور دیگر ممالک جن سے بڑی تعداد میں مہاجرین آتے ہیں، ان کے ساتھ معاہدے کریں گے تاکہ غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھیجا جا سکے۔فراج نے کہا کہ ہم دوسروں کے ساتھ اچھے بھی رہ سکتے ہیں اور بہت سخت بھی ہو سکتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ (امریکی صدر ڈونلڈ) ٹرمپ نے یہ بات بڑے جامع انداز میں ثابت کی ہے۔

 

 

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں اس بات کی فکر ہے کہ پناہ گزینوں کو ان ممالک میں واپس بھیجنے پر جہاں انسانی حقوق کی صورتحال خراب ہے، وہاں قتل یا تشدد کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے تو فراج نے کہا کہ انہیں برطانوی عوام کو لاحق خطرات کی زیادہ فکر ہے۔ان کے بقول وہ دنیا کی آمرانہ حکومتوں کے ذمے دار نہیں بن سکتے، لیکن وہ اپنی گلیوں میں خواتین اور لڑکیوں کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔

حال ہی میں برطانیہ میں پناہ گزینوں کو رہائش دینے والے ہوٹلوں کے باہر چھوٹے پیمانے پر مظاہرے ہوتے رہے ہیں، جنہیں جزوی طور پر عوامی تحفظ کے خدشات نے ہوا دی ہے، خصوصاً اس وقت جب بعض مہاجرین پر جنسی حملے کے الزامات لگے۔وسیع رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام کی سب سے بڑی تشویش مہاجرت اور پناہ گزینی ہے، جو معیشت سے بھی آگے ہے۔ریفارم یوکے جس نے گزشتہ سال کے عام انتخابات میں پانچ نشستیں حاصل کی تھیں، حالیہ ووٹنگ سرویز میں سرفہرست رہی ہے۔

گزشتہ سال 37 ہزار افراد جن میں زیادہ تر افغانستان، شام، ایران، ویتنام اور اریٹیریا سے تعلق رکھتے تھے، چھوٹی کشتیوں کے ذریعے فرانس سے برطانیہ پہنچے، یہ تعداد 2023 کے مقابلے میں ایک چوتھائی زیادہ تھی اور مجموعی خالص مہاجرت کا 9 فیصد حصہ تھی۔آکسفورڈ یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق چھوٹی کشتیوں کے ذریعے آنے والے اور پناہ کی درخواست دینے والے تقریباً دو تہائی افراد کامیاب ہوتے ہیں، جب کہ صرف تین فیصد کو ملک بدر کیا گیا ہے۔

فراج نے بتایا کہ وہ انسانی حقوق کے موجودہ قوانین کو ختم کر کے اور برطانیہ کو پناہ گزین معاہدوں سے الگ کر کے چھوٹی کشتیوں کے ذریعے آنے والوں کے لیے پناہ کی درخواست دینے یا ملک بدری کو چیلنج کرنے کا حق ختم کر دیں گے، کیونکہ یہ ایک قومی ایمرجنسی ہے۔ اس قانون سازی کا مقصد اجتماعی ملک بدری ہے۔ پناہ گزینوں کے باعث پیدا ہونے والا بڑا بحران عوامی غصے کو ہوا دے رہا ہے۔فضائی اڈوں پر 24 ہزار مہاجرین کو رکھنے کی سہولت قائم کی جائے، جس پر ڈھائی ارب پاؤنڈ (تین ارب 40 کروڑ ڈالر) لاگت آئے گی، اور روزانہ پانچ ملک بدری پروازیں چلائی جائیں تاکہ مجموعی طور پر لاکھوں افراد کو واپس بھیجا جا سکے۔اگر یہ منصوبہ ناکام ہوتا ہے تو فراج کے مطابق پناہ گزینوں کو بحرِ اوقیانوس کے جنوبی حصے میں واقع برطانوی علاقے اسینشن آئی لینڈ پر رکھا جا سکتا ہے تاکہ ایک علامتی پیغام دیا جا سکے۔

 

Leave A Comment

Advertisement